کراچی میں بلدیاتی انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی نے ڈسٹرکٹ کیماڑی بلدیہ ٹاؤن میں بھاری اکثریت حاصل کی انکے تمام نمائندے کامیاب ہوئے جن میں یوسی 13 سے پرویز احمد دودا وائس چیئرمین کی نشست پر کامیاب ہوئے ۔ کامیابی کے بعد سے ڈسٹرکٹ کیماڑی پاکستان پیپلز پارٹی کے صدر لیاقت علی آسکانی نے مختلف اجلاس اور پارٹی میٹنگز میں پرویز احمد کو پیپلز پارٹی کی جانب سے بلدیہ ٹاؤن کی چیئرمین شپ کا امیدوار نامزد کرنے کا اعلان کیا اور یہ اعلان یک بار نہیں بلکہ متعدد بار کیا گیا۔
لیکن یہ اعلانات چند بعد ہی ماند پڑ گئے اور وائس چیئرمین یوسی 12 لیاقت علی آسکانی کے بھائی کریم آسکانی کے نام کی گونج بلدیہ ٹاؤن میں سنائی دینے لگی بس پھر وہی ہوا جو سیاست میں ہوتا ہے اور ناراضگیاں شروع ہوئی وفاداریاں بدلنے کی باتیں ہوئی ملاقاتیں بند ہوئی اور یہ معاملہ شدّت اختیار کرگیا لیکن شکر خدا کا یہ دوریاں وقتی تھی۔ اس معاملے کی نوعیت سمجنے کے لئے یہ جملہ کافی ہے وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوجائے۔۔۔
ہمارا ٹاؤن چئیرمین کا امیدوار پرویز احمد دودا ہوگا
صدر ڈسٹرکٹ کیماڑی پاکستان پیپلز پارٹی لیاقت علی آسکانی کے ماضی میں کئے گئیے اعلانات
یہ خوش آئند بات کے بلدیہ کے بیٹے دوبارہ ہنسی خوشی سے گھل مل گئے جن لوگوں نے راہ ہموار کی وہ انتہائی قابل اور درد مند ہیں البتہ سیاسی مقاصد کے لئے چند لوگوں نے اس معاملے کو طول دینے کی کوشش کی لیکن وہ تمام نام رہے۔
اس بات کا کریڈٹ میں پاکستان پیپلز پارٹی ڈسٹرکٹ کیماڑی کے سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کو ضرور دینا چاہوں گا کہ جنہوں نے اس چیئرمین شپ کے معاملے پر صرف پارٹی کے مؤقف کی ہی تائید کی بجائے کسی نمائندے کی حمایت یا مخالفت کے۔
لیاقت بھائی کی بنسبت ہمارا تعلق پرویز بھائی سے زیادہ مضبوط ہے یہی وجہ ہے کہ بلدیہ کے چیئرمین کی حیثیت سے انکی نامزدگی کو پس پشت ڈالنا ہمارے لئے بھی تکلیف دہ تھا لیکن اسکا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ہم سالار ڈسٹرکٹ کیماڑی ممبر صوبائی اسمبلی سندھ معاون خصوصی وزیراعلی سندھ برائے کچی آبادی لیاقت علی آسکانی بھائی کے خلاف تھے یا کبھی رہے۔
میرے لیئے کریم آسکانی بھی قابل احترام ہیں آخر وہ بھی منتخب وائس چیئرمین ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس معاملے کی نوعیت تو ہمارے لئے تو صرف خبر کی حد تک تھی جسے ہم سے انتہائی زمہ داری کے ساتھ صرف سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ہائی لائٹ کیا البتہ اسے پرنٹ میڈیا یا پھر الیکٹرانک میڈیا کی زینت بھی بنایا جا سکتا تھا لیکن ہم نے گھر کی خبر کو گھر تک ہی رہنے دیا نہ کسی کے ہاتھ استعمال ہوئے کبھی نہ ہونگے جب بھی لکھا حق سچ لکھا اور ڈنکے کی چوٹ پر لکھا میرا قلم ہی تومیری طاقت ہے پھر نہ لکھنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جبکہ ایک دوست جو لیاقت علی آسکانی بھائی کے قریبی اور دیرینہ ساتھی ہیں انکا مجھ سے ایک تحریر پر اختلاف بھی ہوا جو کہ پرویز احمد دودا بھائی کے حق میں تھی اور اسکی پختہ وجوہات بھی ہیں لیکن وہ اپنی جگہ درست تھے میرے نظرے سے میں درست تھا۔ بقول شاعر ۔۔۔
میرے ہاتھ میں قلم ہے میرے ذہن میں اجالا
مجھے کیا دبا سکے گا کوئی ظلمتوں کا پالا
بحرکیف ان دوستوں کے مخالفین کے لئے وائس چیئرمین یوسی 9 شہزاد قادری کی مسکراہٹ ہی کافی ہے۔
دونوں رہنماؤں کی ناراضگی اور سیاسی گرما گرمی کے بابت پارٹی ذرائع سے روانہ کی بنیاد پر خبر مل جاتی تھی لیکن ان دونوں بھائیوں جیسے دوستوں سے ہمیں بھی تو پیار محبت اور دوستی ہے یہ وجہ ہے کہ کوئی خبر بریک منگھڑت کہانی یا پھر ہنگامہ برپا نہیں کیا بلکہ انتظار اور ہمیشہ دعا ہی کی کہ معاملہ اتفاق سے حل ہو اور پھر سے اتحاد قائم ہو، بلآخر لیاقت علی آسکانی اور پرویز احمد دودا بھائی کے قریبی دوستوں کی بدولت یہ درجہ حرارت کم ہوا اور گلے لگ کر معاملات حل کروائے گئے۔
اللہ پاک آپ سب کو اتفاق سے رہنے کی توفیق عطا فرمائے آمین