نیشنل انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ(این آئی سی ایچ) کے ملازم کی جانب سے ادارہ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کو جمع کروائی گئی درخواست میں انکشاف ہوا ہے کہ 2009 سے لے کر 2020 تک سید جمال رضا این آئی سی ایچ کے سربراہ رہے ان کے دور میں ڈاکٹر عمرانہ پل میڈیکل افسر 17 BS نے ڈیوٹی نہیں کی لیکن اس وقت کی انتظامیہ نے ان کے خلاف کوئی قانونی کاروائی نہیں کی اور ان کی تنخواہ و دیگر مراعات جاری رہیں۔
جبکہ یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ این آئی سی ایچ میں ٹرانسفر سے پہلے مزکورہ ملازمہ کے خلاف سول ہسپتال میں تادیبی کاروائی جاری تھی اور ان کے سرکاری نوکری سے فارغ ہونے کا امکان تھا لیکن انہوں نے اثر رسوخ استعمال کر کے این آئی سی ایچ میں ٹرانسفر کروایا۔
دوسری جانب 2020 کے بعد سے انتظامیہ تو وہی ہے لیکن سربراہ ڈاکٹر ناصر سلیم سڈل بن گئے ہیں وہ بھی مزکورہ گھوسٹ ملازمہ کے خلاف کارروائی سے گریزاں ہیں۔
مزکورہ درخواست میں انتظامیہ سے سوال کیا گیا ہے کہ اس بات کا جواب کون دے گا کہ ان آٹھ سالوں میں سرکاری خزانے کو تقریباً 20 کروڑ کا نقصان ہوا کیونکہ محترمہ نے ایک دن بھی ڈیوٹی نہیں کی لیکن تنخواہ جاری رہی۔
جبکہ این آئی سی ایچ کے ملازم نے مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہیلتھ منسٹر سندھ ، چیف سیکرٹری سندھ ،سیکریٹری محکمہ صحت سندھ ڈاکٹر عمرانہ پل کے خلاف ضابطے کی کاروائی کرتے ہوئے ان کو سسپینڈ کرتے ہیں اور تنخواہ بند کرکے اس ادارے کے سابقہ اور موجودہ سربراہان کے خلاف انکوائری کا آغاز کرتے ہیں یا اس حوالے سے خاموشی اختیار کرتے ہیں۔
20 کروڑ کچھ زیادہ ھی لکھ دیا۔ 17 BS گریڈ ڈاکٹر کی تنخواہ تقریباً ماہانہ ایک لاکھ ہوگی یعنی آٹھ سال کے ایک کروڑ بنے۔