ایف آئی اے کی انکوائری میں اگر وائس چانسلر جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی بھی ملوث نکلے تو کاروائی ہوگی، ڈاکٹر سعد خالد نیاز

31

 نگراں وزیر صحت، پبلک ہیلتھ انجینئرنگ و سماجی بہبود سندھ ڈاکٹر سعد خالد نیاز نے کہا ہے کہ ایم ڈی کیٹ امتحانات کے دوبارہ انعقاد کے لیے پی ایم ڈی سی کو 19 نومبر کی تاریخ تجویز کی ہے تاکہ بچوں کو دوبارہ ٹیسٹ کی تیاری کے لیے کچھ وقت مل جائے جبکہ ایم ڈی کیٹ ٹیسٹ میں شرکت کرنے والے طلباء سے دوبارہ فیس وصول نہیں کی جائے گی۔

انھوں نے کہا کہ صوبہ خیبر پختونخواہ نے بھی پی ایم ڈی سی کو 19 نومبر کو امتحانات کے انعقاد کی تجویز دی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ایم ڈی کیٹ پیپر لیک نہ صرف حساس بلکہ بچوں اور ہمارے مستقبل کا بھی معاملہ ہے جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا، ایم ڈی کیٹ انکوائری کمیٹی نے اپنی سفارشات چیف سیکریٹری سندھ کے ذریعے نگراں وزیر اعلی سندھ کو بھجوادی تھی جس میں ایف آئی اے سے مزید انکوائری کروانے کی تجویز دی گئی تھی، ایف آئی اے کی انکوائری میں اگر وائس چانسلر جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی بھی ملوث نکلے تو بلاتاخیر انھیں معطل کردیا جائے گا۔

یہ بات انھوں نے سیکریٹری صحت سندھ ڈاکٹر منصور عباس رضوی، ایکٹنگ وی سی ڈاؤ یونیورسٹی اور رجسٹرار کے ہمراہ کراچی پریس کلب میں پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ نگراں وزیر صحت سندھ ڈاکٹر سعد خالد نیاز نے کہا کہ ہنگامی پریس کانفرنس کے انعقاد کا مقصد ایم ڈی کیٹ پیپر لیک جیسے اہم مسئلے سے متعلق عوام کو آگاہ کرنا تھا، ایم ڈی کیٹ کے متاثرہ امیدواروں اور والدین کی تعداد بہت بڑی ہے، معذرت کرتا ہوں کہ ہمیں کچھ فیصلے لینے پڑے، میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج ایڈمیشن ٹیسٹ (ایم ڈی کیٹ) 2023 کا پرچہ آوٹ ہوا، کہاوت ہے کہ نقل کے لیئے بھی عقل چاہیئے، جنہوں نے لیک پرچے سے فائدہ اٹھایا ان امیدواروں کے مارکس غیر معمولی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ سوشل میڈیا اور میڈیا پر جب اس کا شور اٹھا تو اس سلسلے میں فوری انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی، انکوائری کمیٹی نے بلاتفریق انکوائری مکمل کرکے تصدیق کی کہ پرچہ آؤٹ ہوا تھا۔ جس کے لیے ہم نے نگراں وزیر اعلی سندھ کو سفارش کی کہ ایف آئی اے کو اس معاملے میں شامل کیا جائے، ایم ڈی کیٹ تقریبا پچاس ہزار امیدواروں کے مستقبل کا معاملہ ہے، جس میں بے ضابطگیاں میرٹ کے ساتھ زیادتی ہے، امیدواروں کا دوبارہ امتحان دینا زیادتی ہے لیکن باصلاحیت امیدواروں کا حق مارا جانا اس سے بھی بڑی زیادتی ہوگی، اس میں امیدواروں کو ذہنی کرب ضرور محسوس ہوگا لیکن قابل امیدوار دوبارہ ضرور کامیاب ہوں گے۔

انھوں نے کہا کہ ہم نے ڈاؤ یونیورسٹی کی تجویز کردہ 19 نومبر کی تاریخ کو ہی پی ایم ڈی سی کو تجویز دی ہے اس میں بچوں کو ذہنی طور پر تیاری کا وقت مل جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ یہ افسوس کی بات ہے کہ اتنے اہم معاملے میں ہمارے معاشرے کا ضمیر گر چکا ہے، نقل کرنے والے بچوں نے خود پیسے نہیں دیئے بلکہ ان کے والدین بھی اس میں ملوث تھے۔ انھوں نے کہا کہ ہم ممکنہ طور پر بہتر اقدامات کرنے کی کوشش کررہے ہیں، تقریبا پچاس ہزار بچوں کا بیک وقت امتحان لینا آسان نہیں ہوتا، اس سلسلے میں علیحدہ امتحانی مراکز بنائے گئے تھے، بس معاشرے کو پیغام دوں گا کہ ضمیر کو نظر انداز نہ کریں اور جذبہ حب الوطنی پیدا کریں تاکہ اس طرح کے منفی تصورات ذہن میں نہ آئیں۔ انھوں نے کہا کہ ذاتی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ ایم ڈی کیٹ کا امتحان نہیں ہونا چاہیئے، میڈیکل کالجوں اور جامعات میں داخلے کے لیئے آسان طریقہ اختیار کرنا چاہیئے، گزشتہ سال ایم ڈی کیٹ کے پرچے میں سات سوالات نصاب سے باہر کے تھے، وہ ایک ٹیکنیکل مسئلہ تھا۔ انھوں نے کہا کہ نگراں حکومت کو تھوڑا وقت دیجیئے، اگر وہ کاروائی نہیں کرسکے تو وزارت چھوڑنے کے لیے بھی تیار ہیں۔ ڈاکٹر سعد خالد نیاز نے کہا کہ میں ان میں سے نہیں جو صرف باتیں کرتے ہیں، ایف آئی اے کی ساری تحقیقاتی معلومات میڈیا سے شیئر کریں گے کیونکہ یہ بہت بڑا جرم ہے،ہمارے پاس ملوث افراد کے خلاف جو ثبوت ہیں وہ کسی مستند ادارے کی طرف سے نہیں ہیں لہذا اگر تصدیق ہوگئی تو یقیناً کاروائی کریں گے۔ انھوں نے کہا کہ مسائل پچاس سال کے ہیں حل کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور آپکو دو ماہ میں واضح بہتری نظر آئے گی۔ انھوں نے کہا کہ زاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ اگر اسپتالوں میں سہولیات مہیا نہیں کرسکتے تو پھر ان کو بے ضابطگیوں کی سزا بھی دینے کا اختیار نہیں رکھتے۔ انھوں نے سوال کیا کہ سرکاری دفاتر و اسپتالوں کے علاوہ کونسا دفتر یا اسپتال ایسا ہے جہاں ٹوٹی ہوئی میز کرسی پر افسر یا ڈاکٹر بیٹھتا ہے؟ ہماری ترجیح بنیادی صحت کے مراکز اور دیگر اداروں کی بہتری ہے، جہاں کا کچن ٹھیک نہ ہو، ایمرجنسی کی سہولیات بہتر نہ ہوں، آپریشن تھیٹر کی چھت ٹوٹ کر گر رہی ہوں، اسٹاف کی تنخواہیں نہ ہورہی ہوں یا ادویات میسر نہیں آرہی ہوں وہاں روبوٹک سرجری غیر اہم ہے، اس لیے کوشش ہے کہ پہلے بنیادی سہولیات بہتر ہوں، میں یہ نہیں کہتا کہ روبوٹک سرجری غلط ہے لیکن فرق ترجیحات کا ہے جو کہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔

انھوں نے کہا کہ جب ہم نقل کرکے ڈاکٹر یا انجینئر بنیں گے تو ہماری سروس کوالٹی کیا ہوگی، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم نے گزشتہ تیس سالوں میں اس پر کوئی کام نہیں کیا۔ نگراں وزیر صحت سندھ نے کہا کہ قومی ادارہ صحت برائے امراض قلب کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی تعیناتی کی سمری 6 ماہ قبل گئی تھی، امید ہے آئندہ سندھ کابینہ کے اجلاس میں قومی ادارہ صحت برائے امراض قلب کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی تعیناتی کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ سابق وزیر اعلی اور سابق وزراء کچھ مخصوص اداروں کو ان کی خدمات کے لیئے سراہتے ہوں گے جن میں ایس آئی یو ٹی، انڈس اسپتال سمیت ایسے ادارے شامل ہیں جو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت چل رہے ہیں اور ان کے کامیابی کے پیچھے بھی سندھ حکومت کی بھاری مالی سپورٹ ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.