سندھی اور اردو پڑھانے کے حوالے سے محکمہ تعلیم سندھ کی جانب سے لینگویج لرننگ سینٹرز قائم کئے جارہے ہیں۔ سردار شاہ
وزیر تعلیم و ثقافت سندھ سید سردار شاہ نے کہا ہے کہ پرائیویٹ اسکول ایکٹ کے مطابق مادری زبانیں اردو اور سندھی پڑھانا لازمی ہے، اس ضمن میں محکمہ تعلیم سندھ کی جانب سے پرائیویٹ اسکولز کی معاونت کے لیے سندھ کے چار شہروں میں لینگویج لرننگ سینٹرز قائم کئے جا رہے ہیں جس سے سندھی اور اردو کے مضامین پڑھانے والے اساتذہ کی تکنیکنی تربیت کی جاۓ گی تا کہ وہ بہتر انداز میں بچوں کو ہماری زبانیں سکھا سکیں، یہ بات انہوں نے آج ڈائریکٹوریٹ آف انسپیکشن اینڈ رجسٹریشن پرائیویٹ انسٹیٹیوشن کے زیر انتظام منعقد ہونے والے ایک نشست میں بحیثیت مہمان خصوصی کہی۔
نشست کا موضوع “کیا ہمارے تعلیمی اداروں میں اردو اور سندھی زبانیں ٹھیک طرح سے سکھائی جا رہی ہیں؟” تھا۔ اس موقع پر ادیبوں، صحافیوں، تعلیمی ماہرین اور اساتذہ کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
مقررین میں نورالھدیٰ شاہ، وسعت الله خان، سندھی لینگویج اتھارٹی کے چیئرمین ڈاکٹر اسحاق سمیجو، محتاب اکبر راشدی، زبیدہ مصطفیٰ، خوش بخت شجاعت، مدد علی سندھی اور دیگر نے مادری زبان کی اہمیت اور اسکولوں میں اس کے معیار کو بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ تمام مقررین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ طبقاتی سوچ اور زبانوں کی عزت نہ کرنے جیسے رویوں کی وجہ سے ہم اپنی زبانوں سے دور ہوچکے ہیں۔
اس موقع پر نور الھدیٰ شاہ نے کہا بچے اپنے وطن اپنے لوگوں سے تب ہی محبت کر سکیں گے جب تک وہ اپنی زبان سے روشناس نہیں ہونگے، انہوں نے کہا کہ اپنے لوگوں کا درد اپنی ہی زبان میں سمجھنا آسان ہوتا ہے، صحافی وسعت الله خان نے کہا کہ ہمیں زبان کو مقدس امانت سمجھ کر آگے نسلوں کو منتقل کرنا ہوگا انہوں نے کہا معاشی فوائد سے ہٹ کر اپنی زبان سے جنون اور ریاستی توجہ کی بنیاد پر ہی زبان قائم رہ سکتی ہے اور ترقی کرسکتی ہے، خوشقسمتی سے پاکستان میں 90 فیصد سے زائد افراد دو سے تین زبانیں بول اور سمجھ سکتے ہیں، ہمیں تھوڑی سی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
اس موقع پر وزیر تعلیم و ثقافت سندھ سید سردار علی شاہ نے کہا کہ انگریزی کو قابلیت سمجھنے جیسے رجحانات کی وجہ سے صرف زبانیںل بلکہ دیگر مضامین کے سیکھنے کے عمل کو بھی نقصان ہوا ہے، پرائیویٹ اسکول ایکٹ کے مطابق مادری زبانیں اردو اور سندھی پڑھانا لازمی ہے، صوبائی وزیر تعلیم نے کہا کہ ایکٹ کے تحت ابھی تک پرائیویٹ اسکولوں کو 10 فیصد غریب بچوں کی داخلہ کروانے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں، بہت سے معاملات میں ہمیں بحیثت معاشرہ بھی اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے،
سردار شاہ نے کہا کہ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ سندھی یا اردو آنا الگ بات ہے اور پڑھانا ایک الگ بات، بدقسمتی سے جن اساتذہ کو مادری زبانیں پڑھانے کے لیے رکھا جاتا ہے وہ پڑھانے کے تکنینکی پہلو نہیں سمجھتے، صوبائی وزیر نے کہا کہ سندھی اور اردو پڑھانے کے لیے سندھ کے چار شہروں کراچی، حیدرآباد، سکھر اور لاڑکانہ میں لینگویج لرننگ سینٹرز قائم کر رہے ہیں، پرائیویٹ اسکولوں میں سندھی اور اردو پڑھانے والے اساتذہ کی تربیت کی جاۓ گی،
صوبائی وزیر تعلیم نے اس ضمن میں انجمن ترقی اردو کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں، وہ بھی اس سلسلے میں آگے آئیں اور پرائیویٹ اسکولز میں اردو پڑھانے کے حوالے سے تجاویز دیں، انہوں نے کہا یہ خوشی کی بات ہے 60 ہزار بھرتی ہونے والے اساتذہ میں فیمیلز کی تعداد زیادہ ہے، نجی ادارے سندھی اور اردو کو قابلیت کی بنیاد پڑھانے کے پابند ہونگے۔
صوبائی وزیر نے کہا کہ دس فیصد غریبوں کے بچوں کو قانون نے مطابق داخلہ دینا لازم ہوگا، اس ضمن میں سول سوسائٹی بھی اپنا کردار ادا کرے، نجی اسکولوں کو بذریعہ اشتہار یہ علامیہ جاری کرنا ہوگا کہ ان کی انرومینٹ کے مطابق وہ کتنے غریب بچوں کو داخلہ دے سکتے ہیں۔ صوبائی وزیر نے کہا کہ اس وقت چالیس لاکھ بچے پرائیویٹ اسکولز میں ریر تربیت ہیں، ہم پرائیویٹ سیکٹر کے خلاف نہیں، لیکن ان کو بھی قانون کے مطابق اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ بعد ازاں صوبائی وزیر تعلیم و ثقافت سندھ نے صحافیوں میڈیا کے مختلف نمائندوں سے بات اور ان کے سوالوں کے جواب دیے۔