متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے سینئر ڈپٹی کنونیر سید مصطفی کمال نے کہاکہ ہم صرف اتنا کہتے آرہے ہیں کہ سب کو درست گنا جائے ہم کہتے ہیں کہ نہ کسی کو کم گنا جائے اور نہ کسی کو زیادہ گنا جائے ہمارا ایک اعلیٰ سطح وفد وزیراعظم سے پرسوں پانچویں بار ملا ہے ہم اسطرح ہونے والی مردم شماری کو قطعی نہیں مانیں گے آپ ہمیں پانی نہیں دیتے، کچرا اٹھتا نہیں کوئی ایک نیا منصوبہ شہر کیلئے نہیں ہے اور وزیر تعلیم سندھ کہتا ہے کہ حیدرآباد میں یونیورسٹی میری لاش پر بنے گی۔
اب ریاست کو فیصلہ کرنا ہے کہ کراچی اور شہری سندھ کا شہری کیاسیکیورٹی رسک ہے جو اسے پورا نہیں گنا جا رہا؟ اور اسے وسائل فراہم نہیں کئے جا رہے، ہم اس جعلی گنتی کو نہیں مان تے اور ہم ان تمام نا انصافیوں پراحتجاج کیلئے اپنا ہر جمہوری حق استعمال کریں گے ان
ان خیالات اظہار انہوں نے بہادر آباد متصل پارک میں منعقدہ پریس کانفرنس کر تے ہوئے کیا۔
سید مصطفی کمال نے مزید کہا کہ آج کی سیاسی و معاشی مشکلات میں گھرا پاکستان سب کے سامنے ہے کیا آجکا پاکستان اس کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ سندھ کے شہری علاقوں میں صورتحال خراب ہوہم بار بار تنبیہہ کر رہے ہیں کہ ہماری بات کو سنا جائے، ہم نے 17 تاریخ کو ادراہ شماریات کا خط لکھا کہ 32ہزار گھروں کی تفصیل نہیں آئی ہم بار بار بتاتے آرہے ہیں کہ کب کہاں کیا غلط ہورہی ہیں ہم یہ تعصب برداشت نہیں کریں گے اور اپنے حقوق کیلئے عوام کے ساتھ سڑکوں پر نکلیں گے آپ ہمیں گننے کیلئے تیار نہیں ہیں تو آپ ہم سے پھر کیا امید رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کے الیکٹرک کو ایک بار پھر لائسنس دینے کی تیاری کی جارہے ہیں اب کے الیکٹرک کی مونو پولی نہیں چلنی چاہیے اب جب آپ نے الیکٹرک سٹی کو پرائیویٹائز کر دیا ہے تو مزید کمپنیوں کو لائسنس دئیے جانے میں کیا مسئلہ ہے کے الیکٹرک اور ایس ایس جی سی کے زریعے کراچی کے غریب لوگوں کی جیبوں سے اربوں روپے نکا لے جارہے ہیں اگر پھر سے کے الیکٹرک کو لائسنس جاری کیا گیا تو ہم کے الیکٹرک کے لائسنس کی تجدید کی مزاحمت کریں گے۔
سید مصطفی کمال نے کہا کہ جب مردم شماری ختم ہوئی تو شہری سندھ میں شکایات کی وجہ سے کراچی حیدرآباد میں ایم کیو ایم کے مطالبے کی وجہ سے تاریخ بڑھائی گئی تو بلاول بھٹو نے وفاقی حکومت کو خط لکھ دیا کہ پورے سندھ میں تاریخ بڑھائی جائے وفاقی حکومت پیپلزپارٹی کی اتحادی ہے انہوں نے حکومت کو بچانے کیلئے انکی بات مان لی اسکے بعد سندھ انتظامیہ نے کراچی حیدرآباد کی آبادی کو کم کیا اور اندرون دیہی سندھ کی آبادی کو زبردستی مزید بڑھاتے چلے گئے جبکہ شکایات صرف شہری سندھ سے تھیں لیکن دیہی ڈسٹرکٹس کی آبادی کو مزید بڑھاتے چلے گئے۔
انہوں نے کہاکہ پاکستان کا آج سب سے بڑا مسئلہ مردم شماری ہے بد قسمتی سے سندھ میں مردم شماری کے حوالے سے مسائل ہیں گزشتہ روز مردم شماری کا عمل ختم ہوگیا ہے ہم پچھلے تین ماہ سے مردم شماری پر اپنی گزارشات میڈیا کے توسط سے عوام و ریاست کے سامنے رکھتے آرہے ہیں میں آج پھر سے ادارہ شماریات کے اعداوشمار آپکے سامنے رکھ رہا ہوں آپکے توسط سے میں ریاستی اداروں سے اپیل کر رہا ہوں کے اب زیادتیوں کی انتہا ہوچکی ہے اب ان زیادتیوں کا اختتام ہونا چاہئے، شہید بے نظیر آباد میں ایک بلاک میں 270 گھر ہیں جبکہ حیدرآباد میں ایک بلاک میں 200 گھر ہیں اور کراچی میں ایک بلاک میں 198 گھر ہیں جہاں گنجان آبادی ہوتی ہے وہاں تو ایک بلاک میں زیادہ گھر ہونا نارمل بات ہوتی ہے کراچی جیسے گنجان آباد شہر میں تو 198 گھر مل رہے ہیں مگر لاڑکانہ میں 250 سے زائد گھر نظر آرہے ہیں کراچی میں 8 لاکھ 47 ہزار گھر نہیں گنے گئے حیدرآباد میں 119 ہزار گھر کم گنے گئے ہیں اور جہاں سیلاب نے پورے اسٹریکچر کو کو تباہ کردیا وہاں 21فیصد تعمیرات دکھائی گئی جبکہ کراچی میں 13فیصد اور حیدر آباد میں 5فیصد یہ کیسے ممکن ہے؟،کراچی میں کوئی گھر ایسا نہیں بچا ہے جو گراونڈ پلس 4 یا 5 نہ ہولاڑکانہ میں گھروں کے اسٹرکچرز 31 فیصد بڑھ رہے ہیں ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ جہاں تباہی آئی ہوئی ہو وہاں 11 لاکھ 35 ہزار گھر بڑھے ہیں اور کراچی جیسے شہر میں صرف 3 لاکھ 70 ہزار گھر بڑھے ہیں۔
اس مو قع پر سینئر ڈپٹی کنونیر ڈاکٹر فاروق ستارنے کہاکہ ہمارا بنیادی مسئلہ پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت کے ساتھ ہے اگر پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت کے تحت یہ پورا عمل ہوا تو کیسے شفافیت رہیگی،کراچی، حیدرآباد اور شہری سندھ میں ہونے والی مردم شماری کو ہم مسترد کرتے ہیں ادراہ شماریات نے ہمارے تحفظات اور شکایات کو خود چیک کیا اور ان خرابیوں کو تسلیم بھی کیا وہ بتائیں گے کہ جن لوگوں کو نہیں گنا گیا تو انہیں کون گنے گا ایم کیو ایم کی جانب سے خرابیاں بتانے اور وقت بڑھانے کے باوجود مردم شماری درست نہیں کی گئی جو اعدادوشمار بتائے جارہے ہیں وہ ڈویژن کے تحت بتائے جارہے ہیں ان میں شہری ڈسٹرکٹ کی آبادیوں کو کم گنا گیا ہے میر پورخاص، حیدرآباد، سکھر، نواب شاہ شہروں کی آبادیوں کو کم گنا گیا ہے،ڈویژنوں کی آبادیاں تو 30 سے 40 فیصد بڑھ رہی ہیں مگر شہری ڈسٹرکٹس کی آبادیاں صرف 10 فیصد بڑھ رہی ہیں کیا ہجرتیں اور لوگ پیدا زیادہ دیہی ڈسٹرکٹس میں ہورہی ہیں؟ پوری دنیا میں تو ہجرتیں شہروں کی جانب ہوتی ہیں ایسا کونسا فریٹیلیٹی ریٹ ہے کہ لوگ پیدا زیادہ دیہی علاقوں میں ہورہے ہیں اور شہروں میں نہیں ہورہے۔
ڈاکٹر فاروق ستار نے مزید کہاکہ1972 سے آج تک جب بھی پیپلزپارٹی کی حکومت آئی ہے تو مردم شماری میں ایسا ہوتا آرہا ہے ہم نے 20 فروری 2023 سے پہلے ہی اپنے خدشات کا اظہار کر دیا تھاہم نے کہا تھا کہ اگر وفاقی حکومت مردم شماری کا عمل خود نہیں کریگی تو مردم شماری درست نہ ہوپائیگی ہم نے کہا تھا کہ اگر صوبائی حکومت کے تحت یہ مردم شماری ہوئی تو مردم شماری میں پھر سے گڑ بڑ کی جائیگی اور اسی گڑ بڑ کے تحت کراچی حیدرآباد میں بلاکس کم رکھے گئے کراچی حیدرآباد میں گھروں اور انسانوں کی تعداد بھی کم رکھی گئی یہ سب ہونے کے باوجود اگر وفاقی ادارہ شماریات نے کوئی منطقی اور قابل قبول تعداد نہیں ظاہر کی تو اس مردم شماری کے نتائج کو کوء قبول نہیں کریگا۔
اس موقع پر سینئر ڈپٹی کنوئیز نسرین جلیل، ڈپٹی کنوئیز ز انیس قائم خانی،عبدالوسیم، اراکین رابطہ کمیٹی، اراکین اسمبلی بھی موجود تھے۔